جمعہ، 22 اپریل، 2016

جبری رئٹائرمنٹ

کل دوپہر سے پاکستانی میڈیا پر فوجی آفسران کی غیر مصدقہ برطرفی اور بعد میں جبری رئٹائرمنٹ کی خبروں نے عوام اور سیاستدانون کا جینا دوبہر کر رکھا ہے۔

اس خبر کو عیسی کو مسلوب کیے جانے کی خبر کی طرح پیش کیا جا رہا ہے، رات ایک پروگرام میں دفاعی تجزیہ کار صاحب فرما رہے تھے تھری سٹار جرنل کو جبری رئٹائر کردیا گیا ہے۔ یہ آپ کے نزدیک معمولی بات ہے,ساتھ میں فرمایا کہ امریکہ اور دیگر بڑے ملکوں میں ایسی باتیں کبھی بھی پبلک نہیں کی جاتیں۔
کوئی ان دفاعی تجزیہ کار سے پوچھے امریکہ اور دنیا کے دیگر بڑے ملکوں (جن کا حوالہ وہ اکثر اپنی باتوں میں دیا کرتے ہیں) میں پچھلے سو سال میں کتنے فوجی حکمران گزرے ہیں ؟
ان ممالک میں عوام کو کیا حقوق حاصل ہیں ؟
وہ معاشرے ترقی کی کس سطح پر ہیں ؟
آپ کو ان ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہوئے شرم نہیں آتی ؟
اس ملک میں فوجی جرنیلوں نے بلا شرکت غیرے بہت سال حکمرانی کی ہے تو کیا وہ بھی موجودہ حالت کے برابر کے ذمہ دار نہیں ؟
کیا ان جرنیلوں کے دور حکمرانی میں کرپشن نہیں ہوئی ؟
کیا ملک کو پرویزمشرف کے دور میں تباہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ؟
ان سب باتوں کا جواب ہاں میں ہوتے ہوئے بھی آپ بےغیرتی کی انتہا کو چھوتے ہوئے کہیں گے کہ سب کچھ درست ہے مگر جرنیلوں کا احتساب ایسے ہی ہوگا کہ کسی کو ناپسندیدہ کی سزا اور کسی کو جبری رئٹائرمنٹ کی جبکہ سیاست دان اور دیگر سولینز کو سرعام پھانسی دے دی جائے۔ 

کرپٹ جرنیلوں کے فضلہ خور میڈیا مینوں نے پہلے ہی کچھ دنوں سے پانامہ لیکس پر حکمران جماعت اور دیگر سیاستدانوں مٹی پلید کررکھی ہے اوپر سے یہ فوجی رئٹائرمنٹ۔

ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ یہ پانامہ لیکس کے بعد حکومت اور سیاست دانوں پر پریشر کی بات سارا میڈیا بڑھ چڑھ کے پیش کر رہا ہے حالیہ فوجی جبری رئٹائرمنٹ پر بھی پریشر سیاستدانوں پر؟

تعجب کی بات ہے کہ جرنیلوں کی کرپشن اور معمولی سزا پر پریشر کرپٹ جرنیلوں پر ہونے کی بجائے سیاسی حکومت اور سیاست دانوں پر ؟ 

جبری رئٹائرمنٹ نے تو یہ بھی بات بھی غلط ثابت کردی ہے کہ فوج میں خود احتسابی کا نظام موجود ہے اور جو کرپشن کرتا ہے فوری پکڑا جاتا ہے,اگر ایسا کوئی نظام موجود ہوتا تو دو فوجی آفسران کی ہلاکت پر ہونے والی انکوئری کرپشن کی انکوئری میں کیسے تبدیل ہوئی ؟

اس بات کا جواب نا تو کسی دفاعی تجزیہ کار کے پاس ہے اور نا ہی کوئی فضلہ خور اینکر اس بات سے کسی کو اگاہ کرنا مناسب سمجھتا ہے۔
اب اگر سمگلنگ کی بات کی جائے تو اس میں منشیات بھی ہوں گی اور اسلحہ بھی اور اس منشیات اور اسلحہ سے کئی ماؤں کے بچے موت کی اغوش میں چلے گئے مگر افسران کو ملی صرف جبری رئٹائرمنٹ اور دباؤ سیاست دانوں پر۔

اور یہ سب کچھ ہوا بلوچستان میں جہاں کئی دہائیوں سے سول حکومت صرف دکھاوے کے لئے بنائی جاتی ہے اور اصل اختیار اور طاقت کا منبع کہیں اور ہوتا ہے۔

کسی دوست نہیں ٹویٹ کیا تھا کہ "ڈاکٹر عاصم کو بھی کرپشن پر سخت ناپسندیدہ قرار دے کر جبری رئٹائر کر دیا جائے" بات تو درست ہے قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے۔
ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ ہمار نبی نے فرمایا تھا کہ :تم سے پہلی قومیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ انکے ہاں امیر کے لئے الگ اور غریب کے لئے الگ قانون تھا

اب اسی حدیث کے مطابق ہی جائزہ لیں اور اندازہ کرلیں کہ ہم کس سٹیج پر ہیں اور مستقبل قریب میں کہاں ہوں گے۔

اگر احتساب کرنا ہے تو مذاق بند کر کے درست انداز میں کریں ورنہ ناپسندیدہ جبری رئٹائر ہونے کے خواہش مند اس ملک میں ہزاروں مل جائیں گے،

 

ہفتہ، 24 جنوری، 2015

چینی انجینئر کی ہلاکت اور پاکستانی صحافت

               پاکستان شائد دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نیوز چینلز تفریحی چینلز سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں،کسی دور میں ہر شام لوگ PTV پر ڈرامہ ذوق و شوق سے دیکھا کرتے تھے,وہ عادت اور روایت آج بھی برقرار ہے,تھوڑی سی تبدیلی یہ واقع ہوئی ہے کہ اس کی جگہ اب نیوز چینلز کے میزبانوں نے لے لی ہے،ہر شام لوگ اپنے اپنے پسندیدہ میزبان کا پروگرام لگا کر اس سے ایک نئے ڈرامے کی توقع کرتے ہیں،اور میزبان بھی اپنے چاہنے والوں  کو مایوس نہیں کرتے،ریٹنگ کے چکر میں پروگرام میں موجود فنکاروں کو کسی بھی طرح دست وگریباں کروا دینا یا خود ان سے الجھ جانا ہر اینکر کی دلی خواہش ،جو اس میں کامیاب ہو جائے اس کا تذکرہ پروگرام ختم ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بڑی شدومد سے کئی دن جاری رہتا ہے،ٹرینڈ بھی بنتے ہیں,اس طرح اینکر عوامی ہیرو بن جاتا ہے، اور عوامی ہیرو بننا ایسی خواہش جو ہر اینکر کے دل میں موجود  ۔۔۔

 

               حال ہی میں ایک دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب ایک اینکر نے ڈرامے کے آغاز میں چینی انجینئر کی ہلاکت کے سنے سنائے واقعہ کی تمہید کچھ اس طرح سے باندھی کہ ہر پاکستانی ملک میں موجود انجینئرز کو گولی مارنے پر غور کرنے لگا .......اب آپ خود سوچیے اگر ایسا ہو جاتا تو ملک میں انجینئرز کا کتنا بڑا بحران پیدا ہو جاتا ۔۔۔۔ ؟ مگر اللہ بھلا کرے ایک سیاستدان کا جو اسی ڈرامے میں موجود تھے، سیاستدان نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اینکر سے سوال کر دیا کہ جس چینی انجینئر کی ہلاکت پر آپ نے اپنے ڈرامے کا ابتدائیہ کہا یہ واقعہ چین میں کب اورکہاں پیش آیا ؟ بس پھر کیا تھا کھسیانی بلی ابھی تک کھمبا نوچ رہی ہے..... ریٹنگز اب کے بھی بہت اچھی آئیں ، سوشل میڈیا پر ابھی تک چرچا ہے اس واقعے کا مگر اب کی بار اینکر ہیرو نہیں  ۔۔۔ 

 

              یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے صحافت کے نام پر پاکستان میں ہو کیا رہا ہے ۔۔ ؟ جو کچھ ہم روزانہ اپنی ٹی وی سکرینز پر دیکھتے ہیں کیا یہ صحافت ہے ۔۔۔؟ کیا ہم اسے صحافت کہہ سکتے ہیں ۔۔؟ اس کے لئے دو تعریفیں پیش خدمت ہیں جن کے مطالعہ سے آپکو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان میں کون سی قسم کی صحافت عروج پر ہے ۔


نوٹ:مندرجہ ذیل تعریفیں  ویکیپیڈیا ویب سائٹ سے مستعار لی گئی ہیں ۔۔۔

 صحافت 

                (Journalism) کسی بھی معاملے بارے تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔صحافت پیشہ کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔ اداروں جیسے حکومتی اداروں اور تجارت بارے معلومات فراہم کرنے کے علاوہ صحافت کسی بھی معاشرے کے کلچر کو بھی اجاگر کرتی ہے جس میں فنون لطیفہ، کھیل اور تفریخ کے اجزاء شامل ہیں۔ شعبہ صحافت سے منسلک کاموں میں ادارت، تصویری صحافت، فیچر اور ڈاکومنٹری وغیرہ بنیادی کام ہیں۔ 

 

 زرد صحافت

                  (Yellow journalism)  صحافت کی ایک پست ترین شکل جس میں کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر زور دینے کے لیے اصل خبر کی شکل اتنی مسخ کر دی جاتی ہے کہ اس کا اہم پہلو قاری کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔یہ اصطلاح انیسویں صدی کی آخری دہائی میں وضع ہوئی۔ جب نیویارک کے اخبارات کے رپورٹر اپنے اخبار کی اشاعت بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر وحشت ناک اور ہیجان انگیز رپورٹنگ کرتے تھے ۔ یہ اشاعتی جنگ (Circulation War) اس وقت عروج پر پہنچی جب بعض اخبارات نے کیوبا میں ہسپانوی فوجوں کے مظالم کی داستانیں خوب نمک مرچ لگا کر شائع کیں، اور امریکی رائے عامہ کو سپین کے خلاف اس قدر برانگیختہ کر دیا کہ امریکا اور سپین کی جنگ تقریباً ناگزیر ہو گئی۔ زرد صحافت کی اصطلاح دراصل اس سنسنی خیز کامک سیریل سے ماخوذ ہے جو Yellow kid کے عنوان سے امریکی اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔

 

                    قارئین کو سمجھ آگیا ہو گا کہ پاکستان میں کس قسم کی صحافت اس وقت عروج پر ہے ، جہاں ایک سابق سینٹر و وفاقی وزیر جس کا دبئی میں روزے والا واقعہ بہت مشہور ہے ایک اہم چینل پر دبنگ تجزیہ نگار بنے بیٹھے ہیں ........ دوسری طرف ایک اور صاحب جو اس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ مشہور و معروف اینکر ہونے کے دعوے دار ہیں مگر صحافت سے دور دور تک کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا اوپر سے ایک مشہور ویڈیو جس میں موصوف کا طے شدہ پروگرام کروانا ثابت ہوا ......  پھر بھی وہ اینکر چینل پر موجود ہیں اور ہر روز قوم کو سیدھی راہ دکھانے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص طبقہ کی کرپشن کی کہانیاں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں مصروف عمل ہیں.....اسی طرح ایک طویل فہرست ہے ایسے غیر صحافتی لوگوں کی جو ہماری ٹی وی سکرینز پر براجمان ہیں .....

 

                  پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر بندہ طبی معائنہ پروفیسر ڈاکٹر سے کروانے کا خواہش مند ..... مکان کا نقشہ بڑے سے بڑے انجینئر سے تیار کروانا دلی حسرت ...... مگر ٹی وی اینکر کی تعلیمی قابلیت کیا ہے ...... اس کا پرانا پیشہ کیا تھا اس کا تجربہ کس فیلڈ میں ہے ..... اس کی باتیں کتنی مصدقہ ہوتی ہیں ..... یہ جاننا ضروری نہیں بس بندے کو لڑائی جھگڑا کروانے کا ماہر ہونا چاہیے ساتھ میں اگر بداخلاق ہو تو کیا بات ہے،

                

               جہاں حکومت کلرک کی سات سکیل کی نوکری میٹرک تعلیم اور ٹائپنگ سپیڈ چیک کرنے کے بعد دیتی ہے،وہاں ملکی رائے عامہ ہموار کرنے والے ٹی وی اینکر کے لئے کوئی تعلیم اور تجربہ درکار نہیں،بس آپکے کسی چاچے مامے کا ٹی وی چینل ہو اگر یہ بھی نہیں تو پھرچند مخصوص لوگ آپکی پشت پر ہونا چاہیں،اور آپ ٹی وی اینکر یا تجزیہ نگار بن گئے،
 


                   اگر یہ غیر صحافتی لوگ اسی طرح اینکر اور تجزیہ نگار بن کر ہماری ٹی وی سکرینز پربیٹھےرہے تو ہر پاکستانی سے میری یہ درخواست ہے کہ وہ ان ڈراموں کا متبادل تلاش کر لے کیونکہ جلد ہی زرد صحافت سے بھرپور یہ ڈرامے ہماری ٹی وی سکرینز سے غائب ہونے والے ہیں...فئیر نا کہنا دسیا نہیں سی ۔۔۔۔ کب کیوں اور کیسے یہ آئندہ کبھی سہی ۔۔۔۔